Official Website of Mirza Ghalib's Divan Nuskha-e-Hamidiya​ ReDiscover Ghalib from his unknown verses.
  • Home
  • About / تعارف
  • Ghazals
    • Index to Ghazals
  • Blog / بلاگ
  • Gallery
  • Contact
  • Buy Now

Ghazal #1 from Mirza Asadullah Khan Ghalib's Divan Nuskha-e-Hamidiya with English transliteration.

1/29/2016

0 Comments

 

دیوانِ غالبؔ، نسخۂ حمیدیہ
dīvān-i g̱ẖālib, nusḵẖa-yi ḥamīdiyyah
غزل  ۱ ​

Verses in black are included in Ghalib's Official Divan whereas verses in green are additional in the Nuskha-e-Hamidiya and verses or words in red are contained in marginal notes or are entered later in another hand in the Nuskha-e-Hamidiya.

​ 
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
 
naqsh faryadī hai kis kī shoḵẖī-i taḥrīr kā
kāg̱ẖazī hai perahan har pekar-i taṣvīr kā
 
آتشیں پا ہوں، گدازِ و حشتِ زنداں نہ پوچھ
موۓ آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیرکا
 
ātashīṉ pā hūṉ gudāz-i vahshat-i zindāṉ na pūch
mū-yi ātash dīdah hai har ḥalqah yāṉ zanjīr kā
 
شوخئِ نیرنگ صیدِ وحشت طاؤس ہے
دام سبزے میں ہے پروازِ چمن تسخیر کا
 
shoḵẖī-i nerang ṣaid-i vahshat-i ṫāvūs hai
dām sabze meṉ hai parvāz-i caman tasḵẖīr kā
 
لذتِ ایجادِ ناز افسونِ عرضِ ذوقِ قتل
نعل آتش میں ہے، تیغِ یار سے نخچیر کا
 
laẕẕat-i ījād-i nāz afsūn-i arẓ-I ẕauq-i qatl
naʻl ātash meṉ hai teg̱ẖ-i yār sai naḵẖchīr kā

 
کاوکاوِ سخت جانی ہاۓ تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوۓ شیر کا
 
kāv-i kāv-i saḵẖt-jānīhā-yi tanhāʼī, na pūch
ṣubḥ karnā sham kā lānā hai jū-i shīr kā
 
خشت پشتِ دستِ عجز و قالب آغوشِ وداع
پُر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا
 
ḵẖisht pusht-i dast-i ʻjz-u qālib āg̱ẖosh-i vidaʻ
pur hoā hai sail se pemana kis taʻmīr kā

 
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
 
jaẕba-i be iḵẖtiyar-i shoq dekhā chahiʼe
sīna-i shamshīr se bāhar hai dam shamshīr kā
 
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
 
āgahī dām-i shanīdan jis qadar chāhy bichāʼy
muddaʻā ʻanqā hai apny ʻalam-i taqrīr kā
 
وحشتِ خوابِ عدم شورِ تماشا ہے اسدؔ
جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا
 
vahshat-i ḵẖvāb-i ʻadam, shor-i tamāsha hai Asad
jo mazā javhar nahīṉ āʼīna-i taʻbīr kā
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
وحشتِ خوابِ عدم شورِ تماشا ہے اسدؔ جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا
وحشتِ خوابِ عدم شورِ تماشا ہے اسدؔ جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا

 نوٹ
 سیاہ رنگ کے اشعار، متداول دیوان میں شامل ہیں، جبکہ ہرےرنگ میں تحریر شدہ اشعار،  نسخۂ حمیدیہ میں درج ہیں، اورسرخ رنگ میں درج شدہ اشعار یا الفاظ، یانسخۂ حمیدیہ کے حاشیے میں درج ہیں یا  اسی نسخے میں کسی دوسرے خط سے اضافہ کیے گئے ہیں۔

Get your copy here
0 Comments

 شہاب ستار- پیش لفظ مرزا اسد اللہ خان غالب کا  نسخہء حمیدیہ 

1/9/2016

0 Comments

 
 
پیش لفظ
مجھے خود پر شرم آتی ہے۔ اس بات پر شرم آتی ہے کہ اوائلِ جوانی ہی سے اپنے آپ کو غالب کی شاعری کا سنجیدہ پرستار سمجھنے، ان کی زندگی اور فن پر کئی کتابیں پڑھ رکھنے، اور ان کی کئی غزلیں زبانی یاد ہونے کے باوجود مجھے تھوڑا عرصہ پہلے تک یہ معلوم نہیں تھا کہ میں تین عشروں تک غالب کے جس دیوان کا گرویدہ رہا، وہ ان کے کل کلام کا نصف حصہ بھی نہیں۔ مجھ پر اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب میرے ہاتھ نسخۂ حمیدیہ کا مخطوطہ لگا۔
 
میں اسی مغالطے کا شکار رہا کہ غالب نے مقدار پر معیار کو فوقیت دیتے ہوئے اپنے ہم عصروں کے مقابلے پر بہت کم غزلیں لکھی ہیں، اور یہ کہ ان کا متداول نسخہ ہی ان کا کل اردو کلام ہے۔ مجھے اب اندازہ ہوا ہے کہ میں اپنی لاعلمی کی وجہ سے ان کی حیرت انگیز دنیا کے نصف حصے سے یکسر محروم تھا۔
 
خوش قسمتی سے، یا شاید بدقسمتی سے، مجھے معلوم ہوا کہ میں اکیلا نہیں ہوں۔ غالب کے بیسیوں چاہنے والوں سے بات کرنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ لگ بھگ وہ سب کے سب اسی کشتی کے سوار ہیں۔ میرے تقریباً کسی دوست کو ان ’اضافی اشعار‘ کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ ایسا کیسے ممکن ہے؟
 
ممتاز ماہرِ غالبیات ڈاکٹر مہرافشاں فاروقی سے رابطہ کرنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ماہرینِ غالب ان اضافی اشعار سے اس وقت آگاہ ہوئے تھے جب 1921 میں یہ ’نسخہ‘ دریافت ہوا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے معلوم ہوا کہ کچھ اور بھی ایسے گمنام ’نسخے‘ عشروں سے موجود ہیں جن کے اندر ’متداول‘ دیوان کے علاوہ اضافی اشعار پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان نسخوں پر کسی کتب خانے کی گرد جمع ہوتی رہی ہے یا پھر یہ کسی عالم کے طاقِ نسیاں پر دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ تو کیا ہم غالب کے متوالے پوری طرح سے متوجہ نہیں تھے؟ یہ اشعار ہماری زندگیوں کو مالامال کرنے کے لیے ہم تک کیوں نہیں پہنچ سکے؟
 
وجوہات چاہے جو بھی رہی ہوں، جن کا ذکر ڈاکٹر مہر فاروقی نے اپنے دیباچے میں بڑی وضاحت سے کیا ہے، میں نے اس کڈھب معمے کو حل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ میں نے ’غالب کی بازیافت‘ کی مہم شروع کی ہے جس کے تحت کوشش کی جائے گی کہ غالب کے مخفی خزانے کو ماہرینِ غالبیات کے دائرے سے نکال کر عام لوگوں کی زندگیوں میں نئے جذبات کا رنگ بھرنے کے لیے پیش کر دیا جائے، اور غالب کے چاہنے والوں کے ہمراہ اس ’جنتِ گم گشتہ‘ کے انوکھے سفر پر روانہ ہو کر دنیائے غالب کا نقشہ ازسرِنو مرتب کیا جائے۔ میرے ذاتی کتب خانے سے نسخۂ حمیدیہ کے ہوبہو عکس کی ڈیجیٹل اشاعت اسی سفر کا انشااللہ پہلا قدم ہے۔
 
یہ کام کسی ایک شخص کے بس کا نہیں تھا۔ غالب کی بازیافت کی مہم کو تقویت دینے کے لیے ہم سب کو اس میں حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان ’نئی‘ غزلوں کو پڑھنے اور انھیں ایک دوسرے کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ماہرین اور شائقین چاہییں، جو ترجمے، تشریح اور تفسیر کو آن لائن پھیلا سکیں۔ ہمیں نئے، پرانے، منجھے ہوئے فنکاروں کی ضرورت ہے جو یہ گمنام غزلیں گا سکیں۔ ہمیں غالب کے حالاتِ زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اسی وقت شاعر مانا گیا جب ان کی غزلیں کوٹھوں پر گائے جانے لگیں۔ غالب کو ازسرِ نو دریافت کرنے کے لیے ہمیں کوٹھوں کی جگہ انٹرنیٹ اور میوزک کمپنیوں کی مدد سے یہ روایت ایک بار پھر دہرانا پڑے گی۔  یہ سب کچھ، اور اس کےعلاوہ بہت کچھ اور کرنے کے بعد ہی اپنی اگلی نسلوں تک وہ حظ و انبساط کی کیفیت پہنچائی جا سکتی ہے جس سے ہم محروم رہے ہیں۔
 
’غالب کی بازیافت‘ کی مہم کے باضابطہ آغاز کے لیے میں ذیل میں ڈاکٹر مہر افشاں فاروقی کی اجازت سے ان کا ترجمہ و تشریح کردہ شعر نقل کر رہا ہوں جو گدڑی میں چھپے لعل کے مصداق غالب کے متداول دیوان میں موجود نہیں ہے۔  
 
ایک مجلد مخطوطے سے ڈیجیٹل کاپی تیار کرنا تکنیکی طور پر آسان کام نہیں تھا، لیکن اس بات کی پوری احتیاط برتی گئی ہے کہ مخطوطے کو جس حد تک ممکن ہو، اس کی اصل شکل و شباہت، جسامت اور حالت میں پیش کیا جائے۔ ہم نے جان بوجھ کر مخطوطے کے اندر پائی جانے والی کئی خرابیوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی۔ خوش قسمتی سے یہ مخطوطہ ہر طرح کے حالات سے گزر کر ہمارے پاس موجود ہے اور ہم اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
 
آپ کے ہاتھوں میں یہ تاریخی دستاویز ہے، جس پر میں آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، اور ایک بار پھر درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس کے اندر موجود اشعار کو باہر نکال کر اپنے گھروں اور اپنے دلوں میں بسا لیں۔
 
شہاب ستار
ڈھاکہ، اکتوبر 2015
0 Comments

    نسخۂ حمیدیہ

     سیاہ رنگ کے اشعار، متداول دیوان میں شامل ہیں، جبکہ ہرےرنگ میں تحریر شدہ اشعار،  نسخۂ حمیدیہ میں درج ہیں، اورسرخ رنگ میں درج شدہ اشعار یا الفاظ، یانسخۂ حمیدیہ کے حاشیے میں درج ہیں یا  اسی نسخے میں کسی دوسرے خط سے
    اضافہ کیے گئے ہیں۔


    ​This section contains ghazals
    from Ghalib's Dewan Nuskha-e-Hamidiya with English transliteration.  
    Verses in black are included in Ghalib's Official Divan whereas verses in green are additional in the Nuskha-e-Hamidiya and verses or words in red are contained in marginal notes or are entered later in another hand in the Nuskha-e-Hamidiya.

    Archives

    September 2016
    July 2016
    May 2016
    April 2016
    March 2016
    February 2016
    January 2016

    Categories

    All

    RSS Feed

Home
About / تعارف
Ghazals
Blog / بلاگ
Gallery
Contact
Buy Here
Copyright © 2015
  • Home
  • About / تعارف
  • Ghazals
    • Index to Ghazals
  • Blog / بلاگ
  • Gallery
  • Contact
  • Buy Now